Orhan

Add To collaction

محبت ہو گئی ہے

محبت ہو گئی ہے 
از قلم اسریٰ رحمٰن
قسط نمبر3

جمشید صاحب اور جنید صاحب چچا زاد بھائی تھے۔ دونوں بچپن میں ساتھ کھیلے تھے. جمشید صاحب کے والد بزنس کی وجہ سے دہلی سے ممبئی شفٹ ہو گیۓ تھے جس وجہ سے جمشید صاحب جنید صاحب سے الگ ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں میں بھی بدلاؤ آگیا. دونوں اپنے بیوی بچوں میں مگن ہوکر ایک دوسرے کو تقریباً بھول ہی گئے تھے. کچھ بزنس نے بھی جمشید صاحب کو ممبئی سے باہر نکلنے نہ دیا. 
جنید صاحب کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی عفیرہ تھی. بیٹے سبھی بڑے تھے اور ماشاءاللہ ذمے دار بھی تھے. ان کا کھاتا پیتا خاندان تھا. بیٹے سبھی شادی شدہ تھے. جنید صاحب اور ان کے بیٹوں کی جان عفیرہ میں تھی. وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی. ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا.
بی-اے کرنے کے بعد عفیرہ نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔پڑھائی سے اس کی جان جاتی تھی۔کورس کی کتابیں دیکھ کر اسے نیند آنے لگتی تھی۔جبکہ ناولز میں اس کی جان تھی۔اسی کی طرح اس کی دونوں سہیلیاں بھی تھیں چنچل اور کھلنڈر۔بظاہر دیکھنے میں بہت معصوم لگتی تھیں لیکن جہاں بھی جاتیں تہلکہ مچا دیتیں۔ یہ تینوں کافی نیک، شریف اور ہنسنے ہنسانے والی تھیں۔
عفیرہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جاتی تھی۔اس کی احساس کمتری اسے لوگوں میں گھلنے ملنے سے روک دیتی تھی کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ وہ اپنی باقی کزنز کی طرح خوبصورت نہیں ہے۔وہ صرف اپنے بھائیوں سے ہی ہنسی مذاق کرتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی اس کی رنگت میں نکھار آتا گیا۔اس کی سانولی رنگت میں ایک معصومیت تھی ایک کشش تھی جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی۔ ہونٹوں پر ہمیشہ دھیمی کی مسکراہٹ رہتی تھی۔بڑی بڑی آنکھوں میں کاجل لگاۓ اس لڑکی کو جو کوئی بھی دیکھتا فدا ہو جاتا۔اس کے تایا زاد شاہمیر بھائی اسے معصوم چڑیا کہتے تھے۔جو ہمیشہ بولتی ہوئی ملتی لیکن اس کی باتوں میں معصومیت ہوتی۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
جنید صاحب اپنے بچوں کی شادی کی شاپنگ کے سلسلے میں دہلی گۓ تھے جہاں ان کی ملاقات اپنے بچپن کے دوست جمشید سے ہو جاتی ہے جن سے مل کر انہیں بے حد خوشی ہوتی ہے۔باتوں باتوں میں وہ انہیں شادی میں فیملی کے ساتھ شرکت کرنے کی دعوت دیتے ہیں جسے وہ بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ جمشید صاحب کی شادی ممبئ کے ایک امیر اور ماڈرن خاندان میں ہو تی ہے۔ جمشید صاحب کے پانچ بیٹے ہیں اور پانچوں کسی وبال سے کم نہیں ہیں.
بڑا بیٹا اسد ان کے سب اولادوں میں سب سے الگ تھا۔دکھنے میں بھی الگ اور سوچ بھی بالکل منفرد۔سرخ و سپید رنگت۔۔لمبا چوڑا۔۔ایک الگ ہی شا‌ن کا مالک۔۔ایک مشہور بزنس ٹائیکون۔۔جمشید صاحب کا سارا بزنس اسی نے ہینڈل کیا تھا۔۔اس کے بعد احد اور فہد بھی اسد کے ساتھ بزنس سنبھال رہے تھے۔۔ کہنے کو جمشید صاحب کی ان تین اولادوں نے مل کر انہیں اور ان کے بزنس امپائر کو ایک شہرت عطا کی تھی۔پھر دائم اور صائم جو کہ جڑواں تھے اور یونیورسٹی اسٹوڈینٹ تھے۔ اسد بظاہر سنجیدہ اور اکھڑ قسم کا شخص تھا۔ لوگوں میں کم ہی کھلتا ملتا تھا جبکہ یہ چاروں کھلنڈرے اور ہنس مکھ تھے۔جہا‌ں بھی ہوتے ایک طوفان برپا کر دیتے۔ دن میں نہ جانے کتنی مرتبہ ماں باپ سے ڈانٹ سنتے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ نت نئی لڑکیوں کے ساتھ افئیرز چلانا ان سب کی پسندیدہ عادت تھی۔ اسد تو ان سب کا بھی باس تھا۔ ہر ہفتے ایک نئی لڑکی کے ساتھ دکھتا اور مہینے میں مشکل سے ایک دو بار ہی گھر میں اپنی شکل دکھاتا ایسے تو وہ اپنے فلیٹ میں اپنی زندگی جیتا۔ جمشید صاحب اور نازیہ بیگم اپنے بچوں کی اس عادت سے بہت پریشان رہتے۔ اسد سے تو انہیں کوئی اچھی امیدیں ہی نہیں تھیں۔ 
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
نازیہ بیگم سے اجازت لے کر وہ فجر کی نماز ادا کرتے ہی وہ ناشتے کی تیاری میں مصروف ہوگئی تھی. جمشید صاحب کی فرمائش پر وہ خالص دیسی ناشتا بنا رہی تھی کیونکہ بریڈ مکھن جوس وغیرہ سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا تھا. رضیہ بھی اس کی بھرپور مدد کر رہی تھی.
"چھوٹی بی بی کافی آپ بنا دیں اسد بابا کو میرے ہاتھ کی کافی اچھی نہیں لگتی." رضیہ کے انداز میں شرمندگی تھی.
"کیوں بھلا اچھی نہیں لگتی... آپ تو اتنی اچھی کافی بنا لیتی ہیں..." 
"وہ جی ان کا کہنا ہے کہ میں سب کچھ بنا لوں لیکن ان کے لئے کافی اور لس لس... او جی کیا نام ہے اس کا میں بھول گئی.. انگریزوں والا نام ہے اس کا.." رضیہ دماغ پر زور دیتے ہوئے بولی.
"لسانہ.."
"ہاں جی وہی... ان کے مطابق میں ان دو چیزوں کی ہڈی پسلی ایک کر دیتی ہوں.." رضیہ کی بات سنتے ہی اس کے منہ سے ہنسی کے فوارے چھوٹ گیۓ جسے وہ بمشکل ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی..
"ہاۓ بی بی جی میں سچ کہہ رہی ہوں."
"اچھا آپ ناشتا ٹیبل پر لگا کر سب کو بلائیں تب تک میں کافی بنا دیتی ہوں."
وہ ساس پین گیس پر رکھتی ہوئی بولی تو رضیہ ناشتے کا سامان لے کر باہر نکل گئی.
تھوڑی دیر بعد سب لوگ ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھا عفیرہ کے بنائے لزیز پراٹھوں اور حلوے سے لطف اندوز ہو رہا تھا سوائے اسد کے... اس کی شاید ابھی صبح نہیں ہوئی تھی...
"تمہارے باس کی ابھی تک صبح نہیں ہوئی کیا.." جمشید صاحب کا انداز طنزیہ تھا. انہیں اپنے بڑے بیٹے کے عادات و اطوار سے کافی چڑ تھی. ان دونوں باپ بیٹے کی آپس میں کبھی پٹی نہیں تھی. بہت کم ہی ایسے موقع آۓ تھے جب یہ دونوں ہم راۓ ھوۓ ہوں. ان دونوں کے بیچ ہمیشہ سرد جنگ لگی رہتی تھی. 
"نام لیا اور شیطان حاضر.." صائم کی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی ضرور تھی کہ سب کے کانوں میں اس کی صدا باآسانی پہنچ گئی تھی. یہی وجہ تھی کہ سب کی نظر ایک ساتھ سیڑھی کی طرف اٹھی تھی مع عفیرہ.. جو خود کو ان سب سے لاتعلق ظاہر کرنے کی بمشکل کوشش کر رہی تھی لیکن اس 'باس' کی آمد کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائی.
"کس نے میرے روم میں الارم لگایا تھا.." وہ دندناتا ہوا سیدھا ڈائیننگ ٹیبل پر آیا تھا. سرخی مائل چہرہ غصے سے لال ہو گیا تھا.. خوبصورت چاکلیٹی براؤن بال پیشانی پر بری طرح سے بکھرے ہوئے تھے... خمار آلود براؤن آنکھوں میں نیند اب بھی موجود تھی... اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بے تحاشا غصے میں ہے...
"مام آپ نے میرے روم میں الارم لگایا تھا.." اپنا جواب نہ پاکر اس نے نازیہ بیگم کی طرف دیکھا تھا.
"نن.. نہیں.. میں کیوں لگانے لگی تمہارے روم میں الارم.." نازیہ بیگم جیسی نڈر ماں بھی اپنے لاڈلے بیٹے کے غصے کے آگے دم بھرتی نظر آتی تھیں.
" میں نے لگایا تھا الارم.. "  دائم کی سے نہایت لاپرواہی سے جواب آیا تو باقی تینوں نے اسے اس انداز سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں 'اتنی ہمت کہاں سے آ گئ تم میں' جبکہ اسد بہت ہی خطرناک تیور لے کر اس کی طرف بڑھا تھا.
"ڈڈڈ.. ڈیڈ نے.. ڈیڈ نے کہا تھا الارم لگانے کو.. میری مجال جو شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالوں.." اسد کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ دائم نے جلدی سے وضاحت دی تو اس نے جمشید صاحب کو دیکھا جو لاتعلق سے بیٹھے ناشتے کا مزا لے رہے تھے.
"ڈیڈ آپ نے... آپ کو تو پتا ہے مجھے الارم کی آواز سے سخت نفرت ہے." 
" ہاں میں نے کہا تھا.. یہ بھی کوئی طریقہ ہے.. مہمان گھر پر ہے اور تم ہر وقت گھر سے باہر رہو.. اگر گھر تمپر ہو بھی تو ہر وقت اپنے کمرے میں قید... مہمان کو بھی وقت دو تاکہ وہ خود کو بوجھ نہ سمجھے..."
" مہمان کا مجھ سے کیا تعلق.. میں نے کہا تھا اسے گھر آنے کو.." اس کی بدتمیزی پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ عفیرہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا.
"اسد تم کس انداز میں بات کر رہے ہو... اور کیا بول رہے ہو کچھ علم بھی ہے." نازیہ بیگم نے غصے سے اسے ٹوکا.
"اسد بہت برداشت کر لی تمہاری بدتمیزی... سوری بولو عفیرہ کو.. ابھی اور اسی وقت سوری بولو.."  جمشید صاحب کا پارہ ایک دم ہائی ہوا تھا اس کی حددرجہ بدتمیزی پر.. سب اپنی اپنی جگہ گم سم بیٹھے اسد کو دیکھ رہے تھے جبکہ وہ غصیلی نظروں سے سر جھکائے نادم سی بیٹھی کو گھور رہا تھا...
"اسد... سوری بولو بیٹا.." نادیہ بیگم کے لہجے کے ساتھ آنکھوں میں بھی ریکویسٹ تھی.
"سوری.." ایک نظر ماں کو دیکھنے کے بعد بے تاثر لہجے میں سوری لفظ پھینک کر وہ جس انداز سے آیا تھا اسی انداز سے دھپ دھپ کرتا اوپر اپنے کمرے میں گیا اور روم کا دروازہ اتنی زور سے بند کیا کہ اس کی آواز کافی دیر تک گھر میں گونجی.
ماحول میں اچانک ہی خاموشی چھا گئی تھی. ٹیبل پر اتنے نفوس کی موجودگی کے باوجود بھی صرف کانٹے چمچ کی آواز آگئی. ایسا لگتا تھا سب کی زبان اچانک ہی کاٹ دی گئی.
وہ سر جھکائے کافی کا مگ خالی کرنے کی بمشکل کوشش کر رہی تھی. ندامت، شرمندگی، کمتری، بے عزتی نہ جانے کون کون سے احساسات اچانک ہی اس کے اندر سر اٹھانے لگے تھے. وہ ٹیبل سے اٹھ جانا چاہتی تھی.. اس منظر سے غائب ہو جانا چاہتی تھی.. وہ ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جانا چاہتی تھی... لیکن وہ چاہ سکتی تھی... خواہش کر سکتی تھی... پہل نہیں کر سکتی تھی... سو چپ چاپ سر جھکائے بے بس بیٹھی وہیں رہی.....
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
رات کے کسی پھر اس کی پیاس کی شدت سے آنکھ کھلی تو وہ پانی پینے کی غرض سے کچن میں آگئی.
"ارے تم جاگ رہی ہو.." پانی کا گلاس اس نے منہ سے لگایا ہی تھا کہ فہد کی آواز پر وہ بری طرح اچھل گئی.
"یار تم کتنا ڈرتی ہو.." فہد ہنستے ہوئے آگے بڑھا سلیب پر سے اٹھاکر اس کی طرف مڑ گیا.
"رات کو جاگنا تمہاری روٹین میں بھی ہے کیا.." 
" نہیں وہ میں پانی پینے آئی تھی. آپ اتنی رات کو کیا کر رہے ہیں.."
"ہم لوگ کیرم کھیل رہے ہیں."
"احد بھائی لوگ بھی جاگ رہے ہیں..." 
" کیا یار... کم از کم مجھے تو بھائی نہ ہی بولو تو بہتر ہوگا.." اندر داخل ہوتے ہوئے احد نے اس کی بات سن لی تھی.
"اچھی بات ہے آپ ہی بتا دیں کیا بولوں آپ کو.."
"صرف اور صرف احد... یہ بھائی وائی مجھ سے ہضم نہیں ہوتا... " اس کے منہ بنانے پر وہ ہنس دی.
"اسے شوق سے بھائی بولنا... بہت شوق ہے اسے بھائی بننے کا وہ بھی خوبصورت لڑکیوں کا.." فہد کی طرف اشارہ کرکے وہ شرارت سے بولا .
"بالکل نہیں..."وہ بدک کر بولا.
"خود مجھ سے بڑے ہوکر بھائی بننا پسند نہیں کرتے اور چلے ہیں مجھے بھائی بنانے... نو ویز.."
"تو پھر آپ ہی لوگ بتا دیں کسے بھائی بولوں.."
"اسد کو شوق سے بولنا بھائی.. کیونکہ وہی تو صرف بڑا بچا ہے باقی دو تو ہم سے بھی چھوٹے ہیں.." فہد کے معنی خیز انداز میں آنکھ دبانے پر اسد قہقہہ لگا کر ہنسا تھا. وہ اب ان سب سے کافی فری ہو گئی تھی کیونکہ ان کا انداز اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا اور کچھ وہ بھی ان کی مزاج آشنا ہو گئی تھی. سواۓ اسد کے۔۔۔اس کے موڈ کا کوئی ٹھیک نہیں تھا...
"چلو تم بھی ہمیں جوائن کر لو.." احد نے کیرم کی آفر دی.
"نہیں رہنے دیں.."
"کیوں کھیلنا نہیں آتا کیرم.."
"کھیلنا آتا ہے... پر.."
"ہار جاؤگی اس لئے نہیں کھیل رہی.." احد نے اس کی بات کاٹ کر اسے چھیڑا.
"اب آپ لوگ اتنا فورس کر رہے ہیں تو چلیۓ... لیکن صرف ایک گیم.."
"اوکے ڈن... چلو پھر میری پارٹنر.." فہد مسکرا کر آگے بڑھا تو وہ بھی پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے سٹنگ روم میں آگئی. جہاں وہ سب بے ترتیبی سے بیٹھے ہوئے ساتھ کچھ گلاسیز اور چپس کے پیکیٹس بھی نظر آرہے تھے.. نہ جانے وہ سب کیا پی رہے تھے.. 
"Guys we have a new player... Miss Afeera Junaid... Please give her a big applause.." 
احد اور فہد کے ساتھ باقی تینوں نے بھی اس کا زوردار تالیوں سے سواغت کیا. یہاں آکر اسے معلوم ہوا کہ اسد بھی ان کی گیم میں شامل تھا... اس واقعے کے بعد اس کا اور اسد کا بہت کم ہی سامنا ہوا تھا. وہ اس کے سامنے جانے سے گریز کرنے لگی تھی اور اس کے اس گریز کو اسد نے شدت سے نوٹ کیا تھا... 
پہلے راؤنڈ میں اس کا پارٹنر فہد بنا تھا.. پھر اس کے بعد دائم کے ساتھ اس نے دو راؤنڈ جیتے... اسد نے اسے ستائشی نظروں سے دیکھا... پھر اچانک ہی گیم کے بیچ میں اسے پیاس کا احساس ہوا تو جلدی سے اس نے پانی پیا اور دوبارہ کھیلنے لگی. ان سب کے ساتھ کھیلنے میں اسے کافی مزا آ رہا تھا. پھر
اسے نہ جانے کیا ہوا کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھی بیٹھی لڑھک گئی.
"اسے کیا ہوا.." اسد جلدی سے اس کی طرف بڑھا اور اسے سہارا دے کر اٹھایا.
"عفیرہ... کیا ہوا تمہیں.. آنکھیں کھولو.." اسد نے اس کے گال تھپتھپاتے  ہوئے پریشانی سے پوچھا لیکن اس کے جسم میں ذرا سی بھی حرکت نہ ہوئی. باقی سب بھی پریشانی سے اسے دیکھ رہے تھے.
"پانی۔۔ پانی لاؤ جلدی سے.." فہد کے کہنے پر صائم جلدی سے قدم کچن کی طرف بڑھاۓ پھر نہ جانے کیا سوچ کر واپس اس جگہ پر آیا جہاں ان سب کے گلاسرکھے ہوئے تھے پھر تھوڑی ایک گلاس اٹھا کر ان سب کی طرف مڑا.. اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں...
"یار اس کا پانی کا گلاس تو یہیں پر ہے... تو اس نے کیا پیا تھا...." اسد جو عفیرہ پر جھکا ہوا تھا اس کی بات سن کر پریشانی سے اس کی طرف دیکھا...
"O my God... You idiot...
تم نے اسے ڈرنک پلا دی.." فہد نے غصے اور پریشانی سے دائم کی طرف دیکھا جس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اس سے انجانے میں ہوا ہے یہ سب...
" مم مجھے کیا معلوم تھا... مم میں گلاسیز کی وجہ سے کنفیوز ہو گیا تھا اور اسی کنفیوزن میں اسے ڈرنک والا گلاس دے دیا..."
" اب کیا ہوگا... اسے ہوش کیسے آئیگا..." احد غصے سے چیکھا.
"ششش.. دھیرے بولو ورنہ مام ڈیڈ کو بھی تمہاری اس نئی حرکت کا پتا چل جائے گا..." اسد جمشید صاحب کے کمرے کی طرف دیکھتا ہوا دھیرے سے بولا اور عفیرہ کو گود میں اٹھانے لگا.
"یہ کیا کر رہے ہو..؟" فہد نے حیرت سے اسے دیکھا.
"اسے اس کے کمرے میں لے کر جا رہا ہوں تم لوگ جلدی سے یہ سب صاف کرو.. بنا آواز کیۓ.."
"میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ.." احد کہتا ہوا اس کے ساتھ چل دیا جبکہ باقی تینوں وہاں کی صفائی کرنے لگے.
اس کے میں آکر اسد نے اسے دھیرے سے بیڈ پر لٹایا اور چادر ڈال کر سیدھا ہو گیا... وہ کافی دیر تک اس کے چہرے کو دیکھتا نہ جانے کیا سوچ رہا تھا جبکہ احد پریشانی کے عالم میں روم کے چکر کاٹ رہا تھا. تھوڑی دیر بعد وہ تینوں بھی کمرے میں داخل ہوئے.
" اب کیا ہوگا بھائی... اسے ہوش کیسے آۓ گا.." دائم نے پریشانی سے اسد کو دیکھا.
"آجاۓ گا ہوش ڈونٹ وری.. تم لوگ وہ ساری بوٹلز غائب کر دو جلدی ورنہ پٹیں گے ہم سب..." 
"اب ہمیں چلنا چاہیے کیوں اسد.." فہد نے اسد کو دیکھا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر عفیرہ کو دیکھنے لگا جو بیہوشی کی حالت میں آرام سے لیٹی ہوئی تھی. اس کے چہرے پر معصومیت تھی... ایک عجیب سی کشش...
"چلو سونے چلو سب اپنے اپنے کمرے میں.." اس نے لمبی سانس لے کر اس کے چہرے سے نظر ہٹائی اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا. باقی سب ایک نظر عفیرہ پر ڈال کر کمرے سے نکل گئے. وہ بھی سست قدم اٹھاتا کمرے کے دروازے تک آیا اور مڑکر نیند کی وادیوں میں گم اس لڑکی کو دیکھا اور لائٹ بند کرکے کمرے سے باہر نکل گیا.

   1
0 Comments